حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ ربّ العزّت نے اسلام کو قرآنِ مجید میں دین کا درجہ عطا کیا ہے اور دین سے مراد مکمل ضابطہ حیات ہے لہذا قران کی نظر میں مسلمانوں کی زندگی کا ہر پہلو چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشی ہو یا معاشرتی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا لازمی ہے۔ وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اس منشور کی ایک عملی تصویر ہے جیسا کہ خود قراردادِ مقاصد پاکستان کی رو سے اس ملک کے مکمل نظام اور تمام قوانین کو قرآن و سنّت کی روشنی میں وضع کرنے کا واضح دستور موجود ہے۔ اس کے علاوہ آئین پاکستان بھی صراحت کے ساتھ مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کا معاشی نظام اسلامی بنیادوں پر استوار ہو اور خود اس بات کا اعلان بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رح نے بینک دولت پاکستان کے قیام کے وقت کیا تھا۔ لہذا پاکستان کے موجودہ سودی معاشی نظام کو اسلامی معاشی نظام میں تبدیلی کرنے کی کئی مرتبہ کوششیں کی گئی لیکن مختلف وجوہات مثلا مقتدر اداروں اور افراد کی جانب سے عدمِ توجہ، متضاد قوانین، غیر مستحکم حکمتِ عملی اور مطلوبہ افرادی و تحقیقی وسائل کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے باوجود آئینی تقاضے کے یہ خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔
سن 2002ء سے باقاعدہ ایک جامع منصوبے اور مستحکم نظام کے ذریعے پاکستان سے سود کے خاتمے کے لئے تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام اور ماہر اور تجربہ کار افراد کی مدد سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سرپرستی و نظارت میں پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز ہوا جو کہ بتدریج اسلامی معاشی نظام کی طرف بڑھنے کے لیے پہلا ٹھوس قدم تھا اور یوں آہستہ آہستہ سودی بینکاری کے مقابلے میں اسلامی بینکاری پروان چڑھنے لگی اور اس سے ناصرف یہ فائدہ حاصل ہوا کہ بینکاری کے نظام میں سود جیسی لعنت سے کہ جسے قرآن کریم میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اس سے چھٹکارا حاصل ہوا بلکہ وہ افراد جو اب تک سود کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں سے دور تھے وہ بھی نظام میں آہستہ آہستہ شامل ہونے لگے اور نتیجتاً آج پاکستان بھر میں اسلامی بینکاری کا تناسب تقریبا پچیس فیصد تک پہنچ چکا ہے اور اب ناصرف بینک بلکہ دیگر مالیاتی ادارے بھی اسلامی طرز اقتصاد جسے اسلامک فائنانس سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس طرف تیزی سے منقلب ہو رہے ہیں یا اس ہی بنیاد پر قائم ہو رہے ہیں۔
سن 2022ء میں وفاقی شریعہ کورٹ نے بھی ایک مرتبہ پھر اپنے تفصیلی فیصلے میں سن 2027ء تک ملک کے پورے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جن کی بدولت ہر جہت سے چاہے حکومتی ادارے ہوں یا نجی ادارے، عوام ہو یا خواص سب ہی کی اسلامک فائننس کی طرف آگاہی اور رجحان میں ایک غیر معمولی تیزی نظر آرہی ہے البتہ اسی اثناء میں کہ جب پاکستان میں اسلامی بینکاری فقط تصور ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہے اچانک اسلامی بینکاری کے متعلق بعض ذمّہ دار اداروں اور افراد سے منسوب ایسے بیانات کا سامنے آنا جو کہ عمومی منفی تاثر رکھتا ہو انتہائی تشویش اور اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔
مورخہ 28 اگست 2024ء بروز بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات و آمدن کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ جس میں بشمول دیگر اہم امور کے پاکستان میں رائج اسلامی بینکاری کے متعلق بھی گفتگو کی گئی اور محترم سینیٹرز نے اسلامی بینکاری میں درپیش کچھ مسائل کی نشاندہی کی البتہ اسی اثناء میں کچھ ایسے جملوں کا استعمال کیا گیا جو کہ ناصرف انتہائی غیر ذمّہ دارانہ اور غیر مناسب تھے بلکہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے، مثلا یہ کہا جانا کہ ملک میں اسلامی بینکاری کے نام پر ملک میں فراڈ ہو رہا ہے یا پھر یہ کہنا کہ اسلامی بینک سودی بینک کے مقابلے میں زیادہ سود وصول کرتے ہیں وغیرہ اور پھر جس انداز میں ان جملوں کو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی شہ سرخیوں کے طور پر بیان کیا گیا یقیناً یہ ایک ایسا نقصان ہے کہ جس کے منفی اثرات دیرپا اور ناقابلِ تلافی ہیں۔
پاکستان میں اسلامی بینکاری ارتقائی مراحل میں ہے اور اس مرحلے میں اسلامی بینکاری کو ہر سطح پر مشکلات کا سامنا ہے جس کی ایک طویل فہرست ہے۔ اب چاہے یہ مشکل غیر ہم آہنگ قوانین کی صورت میں ہو یا پہلے سے موجود مضبوط سودی نظام کی صورت میں، موجودہ نظام میں پائی جانے والی خرابیاں ہو یا اسلامی مالیاتی اداروں کے ذمّہ داران کی جانب سے غفلت۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود تمام حکومتی و غیرحکومتی ادارے، عوام اور خواص بالخصوص علمائے کرام نے پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے اور خود حکومتِ پاکستان، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، حکومتی اور نجی اسلامی مالیاتی اور تعلیمی ادارے دن رات اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود بعض مسائل اختیاری و غیر اختیاری نوعیت کے اب بھی باقی ہیں جس کی طرف مذکورہ بالا تمام ادارے ناصرف متوجّہ ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں بھی ہیں۔
جہاں تک رہی بات اسلامی بینکاری پر قائم کئے جانے والے اعتراضات کی تو اولاً تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے منسوب ان اعتراضات کا اسلوب غیر ذمّہ دارانہ تھا کہ جس میں انتہائی غیر مناسب الفاظ استعمال کیے گئے اور ثانیاً، اعتراضات پر سرسری نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراضات بغیر تحقیق کے اٹھائے گئے ہیں کیونکہ یہ کہنا کہ اسلامی بینکاری کے نام پر ملک میں فراڈ ہو رہا ہے تو یہ فراڈ آیا کس طرح سے ممکن ہو پایا ہے؟ جبکہ یہ تمام ادارے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہی کے قوانین اور ہدایات کی روشنی میں اپنے امور انجام دے رہے ہیں تو کیا اسٹیٹ بینک خود اس فراڈ سے غافل ہے یا خود اس فراڈ میں شریک ہے؟۔ اور اگر اعتراض ان اداروں کے حقیقی طور پر اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا ہے تو یہ اعتراض اُن تمام جید علمائے کرام کی علمی قابلیت اور دیانتداری پر سوالیہ نشان ہے جو کہ اسلامی بینکاری کو ناصرف جائز بلکہ مستحسن شمار کرتے ہیں۔ نیز یہ کہنا کہ اسلامی بینک غیر اسلامی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ سود وصول کرتے ہیں تو بادئ النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ معترضین کی اسلامی فقہی تعلیمات بالخصوص معاملات کے متعلق شرعی احکامات کی جانب توجہ اور معلومات انتہائی کم ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی بینک ہو اور سود بھی کمائے!! ہاں جو شریعت نے نفع کے حصول کے جائز طریقے بیان کئے ہیں ان کے ذریعے نفع کمانا جائز ہے لیکن اس جائز نفع کو سود سے تعبیر کرنا ستم بالائے ستم ہے۔
ان اعتراضات پر نقد کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ حال و مستقبل میں اسلامی بینکاری پر اعتراضات ہی نہیں کئے جائیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعتراض تحقیق کی بنیاد پر ہو اور فی نفسِہ تعمیری ہو یعنی اس اعتراض کے نتیجے میں اصلاح ہو۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ ہاں اب بھی کچھ مسائل ہیں جو کہ بہت اہمیت کے حامل ہیں مثلا اسلامی بینکاری کے عمومی صارفین کے نفع کی شرح کا سودی بینکوں کے مقابلے میں کم ہونا یا اسی طرح اسلامی بینکوں میں بعض اوقات سودی بینکوں کے مقابلے میں فائننسگ کی شرح کا زیادہ ہونا وغیرہ۔ ان مسائل کی طرف نشاندہی اور ان کو حل کرنا یقیناً اسلامی بینکاری کے فروغ میں انتہائی کلیدی حیثیت کے حامل ہیں لہذا اسلامی مالیاتی اداروں پر سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے۔
خود سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو ان مسائل کی نشاندہی اور ان مسائل کے حل کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان محترم عنایت حسین صاحب نے وضاحت بھی پیش کی ہے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی سفارش پر تفصیلی رپورٹ بھی پیش کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ البتہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے منسوب ان غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے اسلامی بینکاری کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابلِ تلافی ہے اور یوں تو اس کا جبران مشکل ہے البتہ تمام تر مسائل سے آگاہی اور ان کے متعلق اٹھائے جانے والے اقدامات اور مستقبل کے لائحہ عمل واضح ہونے پر ذمّہ داران سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے منسوب الفاظ واپس لینے کی شدت سے سفارش کی جاتی ہے اور ساتھ وہ تمام مسائل اور اعتراضات جو پاکستان میں اسلامی بینکاری کے رواج میں رکاوٹ یا اس کی رفتار کو سست کرنے کا باعث ہیں ان کے جلد از جلد حل کے لیے مقتدر حکومتی اور نجی اداروں اور افراد سے مستحکم حکمت عملی تیار کرنے اور اس پر جلد از جلد عمل در آمد کرنے کی بھی سفارش کی جاتی ہے۔